کسی سیانے اور سمجھدار نے ایک بات کہی ہے اور جب اس بات کو مسلسل آزمایا اور پرکھا تو وہ بات سوفیصد درست ہے اور حقائق پر مبنی ہے اور اس حقیقت کا انکار شاید ہی کوئی ناسمجھ بندہ کرے ورنہ حقائق حقائق ہوتے ہیں اور سچائی سوفیصد سچائی ہوتی ہے۔ عروج و زوال کی داستانیں بہت پرانی ہیں‘ زوال کو ہمیشہ عروج اور عروج کو ہمیشہ زوال رہا ہے‘ یہ قدرت کا سچا وعدہ اور پکا عہد ہے‘ حقائق حقائق ہوتے ہیں ایک سوال میں اپنے من سے بھی اور اب آپ تمام قارئین سے بھی کررہا ہوں یقیناً اگلے ہی لمحے آپ کو اس کا جواب ملے گا اور سوفیصد ملے گا اور اس جواب کی انتہا یہی ہوگی جس سے چاہے لے لے جس کو چاہے دے دے‘ گزشتہ دنوں میں پوری دنیا کے بڑے مالدار اور کھربوں ڈالروں کے مالکوں کی ریسرچ پڑھ رہا تھا‘ لکھا تھا کہ دنیا میں اسی فیصد دولت‘ مال‘ بنگلے‘ کوٹھیاں‘ ملیں‘ فیکٹریاں‘ کاروبار‘ رقبے‘ زمینیں تیسری نسل تک نہیں پہنچتے‘ بیس فیصد میں دس فیصد وہ لوگ ہیں جن کی تیسری نسل تک دولت اور مال پہنچتا ہے اور ان میں دس فیصد وہ ہیں جو نسل در نسل مال و دولت کو لیے اور سنبھال کر چل رہے ہیں اور مال و دولت بڑھتا چلا جارہا ہے‘ یعنی دس فیصد ہی ایسے لوگ ہیں جو یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم جدی پشتی آباؤ اجداد سے دولت مند ہیں۔ میرے سالہا سال کے مشاہدات اور میری زندگی کے دن رات اور صبح و شام کے تجربات جو مجھے حاصل ہوئے ہیں‘ میں اپنے تجربات کے نچوڑ میں سے ایک بات قارئین آپ کو ضرور لکھوں گا۔ عروج کس کو ملتا ہے؟ اور زوال کیوں آتا ہے! اور عروج اور زوال کے نظام میں کون سے اسباب اور عوامل ہیں مجھے امید ہے کہ آپ ان اسباب اور عوامل کی تفصیل مجھے ضرور لکھیں گے چند واقعات میں آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں:۔صادق گڑھ پیلس کے ساتھ ایک پٹواری تھا جس کے بچوں کی جیب میں ہروقت بادام‘ کشمش‘ پستہ اور اعلیٰ قسم کے میوے ایسے بھرے ہوتے تھے جیسے دوسروں کی جیب میں چنے‘ اچھی پوشاک‘ اچھا لباس‘ کھانا پینا نہایت لاجواب باکمال اٹھنا بیٹھنا بہت بہترین‘ بس حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ کچھ بھی نہ رہا‘ اور وہی بچے دربدر ہوگئے۔ پتوکی میں بھی اسی طرح ایک پٹواری کا واقعہ‘ بہت بڑی کوٹھی‘ فیکٹری‘ زمین‘ ٹریکٹر‘ ٹیوب ویل‘ بہترین زندگی کا بہترین نظام لیکن تقدیر نے سب کچھ چھینا کچھ بھی نہ رہا‘ گوجرانوالہ میں ایک صاحب کی زندگی ایسی شاندار کہ لوگ دیکھ کر رشک کرتے تھے‘ اعلیٰ قسم کی گاڑیاں‘ لباس ایسا کہ لندن سے سل کر آتا تھا‘ پھر کسی نے کہا کہ کویت میں ایک صاحب بہت اعلیٰ قسم کے درزی ہیں پھر کویتی دینار مزدوری کی شکل میں انہیں دیتے اور اپنا لباس سلواتے‘ چھ کنال کا بنگلہ لیکن حالات کا عروج و زوال ایسا کہ دنوں میں کچھ بھی نہ بچا۔ لاہور سبزہ زار میں ایک صاحب کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں آج وہ ویلڈنگ کا کام کررہا‘ اس کا کوئی لباس ایسا نہیں جو ویلڈنگ کی چنگاریوں کی وجہ سے چیر چیر نہ ہو وہ سارا دن لوہا کوٹتا ہے مزدوریاں کرتا ہے‘ لوگوں کی جھڑکیاں سہتا ہے اور سنتا ہے‘ کبھی ہم نے سوچا کہ وہ عروج سے زوال میں کیوں آیا؟ آئیے! میں آپ کو ایک اور واقعہ بھی سناتا چلوں‘ لاہور کا ایک باراتی‘ جس نے کراچی کیلئے پورا جہاز بک کروایا اور پورے جہاز میں صرف اسی کی بارات تھی اور کوئی سواری نہیں تھی‘ بہت شان و شوکت سے بارات گئی‘ وہاں اعلیٰ اور قیمتی گاڑیاں تھیں‘ جنہوں نے بارات کو وصول کیا‘ اعلیٰ ترین کھانے‘ ہال‘ سونے اور ہیرے جواہرات کے سیٹ‘ زندگی کا نظام ایسا تھا کہ ہر شخص رشک بھری نظروں سے دیکھتا تھا اور پھر زندگی میں ایک غیرمحرم عورت آئی اور یوں آہستہ آہستہ جاتے جاتے آج وہ شخص لاہور بندروڈ پر بسوں کی باڈیاں اور پھٹی پرانی سیٹیں مرمت کررہا ہے۔ لاہور سگیاں پل سے اگے جائیں تو پھولوں والا چوک آتا ہے‘ وہاں ایک صاحب پانچ کنال کے بہت بڑے گھر میں رہتے تھے‘ زندگی کی ہر آسائش آرام‘ لطف‘ لذت دوستیاں‘ بڑے بڑے لوگوں سے تعلقات‘ آنا جانا‘ یہ سب کچھ تھا جب حالات نے پلٹا کھایا پانچ کنال کا گھر نہ رہا‘ گاڑیاں دوستیاں‘ تعلقات‘ بہترین زندگی کچھ نہ رہا‘ رہے نام اللہ کا‘ آج وہ شخص کسمپرسی کی زندگی تنگدستی اور غربت کی زندگی بلکہ غربت سے نچلے افلاس کی زندگی گزر رہا ہے‘ آخر ایسا کیوں ہوا؟ کیا رب نعوذ باللہ ظالم ہے‘ کیا رب کی ترتیب غلط ہے؟ ہرگز نہیں! بالکل نہیں! ہم غلط ہوسکتے ہیں رب درست اور بالکل درست اس کا نظام صحیح اور بالکل ٹھیک۔ آخر خرابی کہاں پیدا ہوئی۔ ایک شخص ایسے ہیں جن کا نام لکھنا مناسب نہیں‘ کیونکہ میری تحریر ہر فرد پڑھتا اور عبقری گھروں میں جاتا ہے‘ میری کوشش ہوتی ہے کہ گفتگو بھی ہوجائے اور رازداری بھی ملحوظ اور اس کا لحاظ رکھا جائے۔ بہت غریب ماں باپ کے بیٹے تھے ماں نے سلائیاں کرکے گھروں کے برتن دھو کر جھاڑو دے کر بیٹے کو پالا‘ شاید کہیں تربیت میں کمی رہ گئی جو کہ آج کے مزاج کا حصہ نہیں کیونکہ تعلیم کی ہوس‘ کتابوں کا بوجھ زیادہ اور تربیت بالکل نہیں‘ بس ان کا مزاج بھی شاید ایسا تھا غصہ بداخلاقی‘ بڑھتی چلی گئی اور ایک وقت آیسا آیا کہ سب کچھ ختم‘ پھر بینک کی طرف رجوع کیا‘ بینک سے سود لیا اور جو رہی سہی کسر تھی وہ بینک نے پوری کردی۔ دیوالیہ ہوا اور بالکل ختم ہوگیا۔ ایک صاحب ملے جو 1961ء میں ٹرانسپورٹ کا کام کرتے تھے‘ بہت اچھا دور تھا‘ ہر شخص ٹرانسپورٹر نہیں تھا‘ کچھ مخصوص گنے چنے لوگ تھے‘ جنہوں نے یہ کام کیا اور کمایا اور جی بھر کر کمایا‘ ان کو ہمیشہ گاڑی کیلئے ایسا وقت چاہیے ہوتا تھا جس میں سواری ہو‘ اگر کوئی احتجاج کرتا تو اس نے اپنے غنڈے رکھے ہوئے تھے جو اس کی پٹائی کرتے بعض اوقات ہڈیاں توڑ دیتے لہولہان کردیتے پھر اگر کوئی دوسری بس والا زیادہ احتجاج کرتا کہ سواری کا ٹائم سب کا حق ہے تو اپنی بس اس کی بس میں ٹکرا کر دونوں کو چلنے کے قابل نہ چھوڑتا چونکہ اس کی بسیں زیادہ تھیں اس بس کی کمی اور بسیں پوری کرلیتی تھیں دوسرے فریق کو اس روزی سے بھی فارغ کردیتا۔ لیکن کب تک؟ آج وہ شخص جس کسمپرسی کی زندگی گزار رہا‘ آپ گمان نہیں کرسکتے۔قارئین! چند واقعات عروج و زوال کے میرے پاس لیکن آپ کے پاس تو یقیناً بہت ہوں گے بس مجھے تو ایک بات سمجھ آئی ہے کہ بندہ عروج میں توبہ‘ استغفار‘ جھکنا‘ ندامت‘ معافی‘ اور اگر کوئی بول میں اکڑ چال میں اکڑ حال میں اکڑ لہجے میں اکڑ اور انداز میں کوئی خامی ہو اللہ کی ذات سے مانگتا رہے‘ استغفار کرتا رہے توبہ کرتا رہے‘ وہ بہت کریم ہے؎ اور معافی کو پسند کرتا ہے لیکن! یہ چیز دولت عہدہ اقتدار چیزیں ملنے کے بعد بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہیں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بھول جاتے ہیں اور فراموش کربیٹھتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں